قرضوں کا بڑھتا بوجھ اور ان پر سود میں اضافہ
قرضوں کا بڑھتا بوجھ اور ان پر سود میں اضافہ
پاکستان نئے قرض لینے پر مجبور
کمرشل شرح سود پر قرضے لینے میں بھی دشواریاں
کاؤنٹر کرنسی آرگنائزیشن کی تازہ ترین ,پورٹ
بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات نے پاکستان کو بھاری شرح سود کے کمرشل قرضوں کی جانب دھکیل دیا
رپورٹ..
قرضے لینے کے لیے حکومت چاروں طرف ہاتھ پاؤں مار رہی ہے ..رپورٹ,
حالیہ بجٹ میں 20 ارب ڈالر کا مزید قرضہ لینے کا پلان بنایا گیا..رپورٹ
امارات کی جانب سے تین ارب ڈالر کا رول اوور اس کے علاوہ ہے..رپورٹ
ائی ایم ایف کی جانب سے سات ارب ڈالر کا پیکج دینے میں تاخیر نے صورتحال مزید بگاڑ دی..رپورٹ
عالمی کمرشل بینکوں سے بھاری شر سود پر قرض لینے سے صورتحال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے..رپورٹ
دسمبر 2022 سے اب تک بیرونی قرضہ 77 ارب ڈالر سے بڑھ126 کر ارب ڈالر ہو چکا
..رپورٹ
ورلڈ بینک کا قرضہ 18 ارب ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک کا قرضہ 15 ارب ڈالر اوراب ائی ایم ایف سے 7.6 ارب ڈالر قرضہ لیا جا رہا ہے
پیرس کلب سے لیا گیا قرضہ 22 ممالک کی جانب سے 85 ارب ڈالر بھی واپس کرنا ہے
پرائیویٹ بانڈ کے ذریعے7.8 ارب ڈالر کا مزید قرضہ لیا جا رہا ہے
اس دوران چین سے لیا گیا سات ارب ڈالر قرضہ ایک تا تین سال میں واپس کرنا ہے
پاکستان تا حال 27 ارب ڈالر چین سے قرضہ لے چکا
موجودہ مالی سال 25 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا لازم ہے
گزشتہ تین مالی سالوں میں 164 ارب ڈالر کی امپورٹ کی گئی
قرض واپسی میں ناکامی پر پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جاتا نظر اتا ہے
قرضوں کے معاملے میں پاکستان کی صورتحال سری لنکا کھانا اور نائجیریا جیسی ہو چکی
ان میں سےقرضوں کی ایک بڑی مقدار غیر پیداواری اخراجاتمیں ضائع ہو گئی
ان غیر پیداواری اخراجات میں سب سے بڑی مقدارغیر ضروری امپورٹ میں چلی گئی